۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مراجع تقلید

حوزہ/ اذان اور اقامت میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت اور امامت کی گواہی کو فقہاء کی اصطلاح میں "شہادت ثالثہ" کہا جاتا ہے، توحید الہی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی گواہی کے بعد «أشهَدُ أَنّ عَلیاً ولی الله» یا «أشهَدُ أَنّ عَلیاً اَمیرالمؤمنین حقاً» پا پھر «أشهَدُ أَنّ عَلیاً حُجَّةُ الله» جیسے جملوں سے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کی گواہی دی جاتی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم کی وب سائٹ khamenei.ir پر ایک مضمون میں کچھ اس طرح نقل کیا گیا ہے: اذان اور اقامت میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت اور امامت کی گواہی کو فقہاء کی اصطلاح میں شہادت ثالثہ کہا جاتا ہے، توحید الہی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی گواہی کے بعد «أشهَدُ أَنّ عَلیاً ولی الله» یا «أشهَدُ أَنّ عَلیاً اَمیرالمؤمنین حقاً» یا پھر «أشهَدُ أَنّ عَلیاً حُجَّةُ الله» جیسے جملوں سے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کی گواہی دی جاتی ہے۔

یہ بات حقیقت ہے کہ اذان اور نماز میں شہادت ثالثہ کی تاریخ بہت پرانی ہے جو کہ بعض تاریخی کتابوں میں موجود ہے، لیکن اس مسئلہ کو مراجع عظام نے ایک فقہی مسئلہ قرار دیا ہے، اس لیے اس مسئلہ کو احکام فقہی میں ذکر کیا گیا ہے۔ علمائے تشیع کا یہ ماننا ہے کہ شہادت ثالثہ در اصل اذان کا حصہ نہیں ہے، لیکن اس کو اذان اور نماز میں پڑھنے کے متعلق فقہی حکم میں علماء اور مراجع میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

بعض علماء جیسے شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے اپنی بعض کتابوں میں اسے جائز نہیں سمجھا؛ بعض علماء اسے جزء کی نیت کے بغیر کہنا جائز سمجھتے ہیں جیسا کہ بہت سے معاصر فقہاء اس نظریہ کے قائل ہیں، بلکہ بعض مراجع کرام نے اسے مستحسن قرار دیا ہے اور اسے مستحب کی نیت سے کہنے کو مطلقاً جائز کہا ہے، اور بعض نے اسے علامت تشیع کہتے ہوئے ضروری قرار دیا ہے۔ بعض کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ شہادت ثالثہ اذان اور اقامت کے مستحب اجزاء میں سے ایک ہے، جیسا کہ مرحوم علامہ مجلسی کی کتاب بحار الانوار میں موجود ہے۔

دور حاضر کے مراجع کرام کا نظریہ:

🔶 امام خمینی (رہ): "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" اذان اور اقامت کا حصہ نہیں ہے، لیکن بہتر ہے کہ "اَشْهَدُ انَّ‌ مُحَمَّداً رَسُولُ‌ اللّٰهِ‌" قصد قربت کے عنوان سے "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" کہا جائے۔

🔶 آیۃ اللہ خامنہ ای: "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" کو شعار تشیع کے عنوان سے پڑھنا بہتر اور مہم ہے، لیکن اذان اور اقامت کا حصہ نہیں ہے، اور "اَشْهَدُ انَّ‌ مُحَمَّداً رَسُولُ‌ اللّٰهِ‌" کے بعد مطلقاً قصد قربت کے عنوان سے کہا جا سکتا ہے۔

🔶 آیۃ اللہ سیستانی: "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" اذان اور اقامت کا حصہ نہیں ہے، لیکن بہتر ہے کہ "اَشْهَدُ انَّ‌ مُحَمَّداً رَسُولُ‌ اللّٰهِ‌" کے بعد قصد قربت کے عنوان سے "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" کہا جائے۔

🔶 آیۃ مکارم شیرازی: آیۃ اللہ خامنہ ای: "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" (میں گواہی دیتا ہوں کہ علی (ع) اللہ کے ولی ہیں) اذان اور اقامت کا حصہ نہیں ہے، لیکن بہتر ہے کہ تبرکاً "اَشْهَدُ انَّ‌ مُحَمَّداً رَسُولُ‌ اللّٰهِ‌" کے بعد پڑھا جائے، البتہ یہ خیال رہے کہ جزء کی نیت نہ ہو۔

🔶 آیۃ اللہ شبیری زنجانی: بہتر ہے کہ برکت و ثواب کی نیت سے "اَشْهَدُ انَّ‌ مُحَمَّداً رَسُولُ‌ اللّٰهِ‌" کے بعد حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت بلا فصل اور دیگر معصومین (ع) کی ولایت و امامت کی گواہی اذان اور اقامت کا جزء نہ سمجھتے ہوئے دی جائے۔ اگر بعض حالات میں اس شہادت کو ترک کرنے سے شیعیت کو کمزور ہونے کا خطرہ ہو تو اس شہادت کا اذان اور اقامت میں پڑھنا ضروری ہے۔

🔶 آیۃ اللہ وحید خراسانی: "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" اذان اور اقامت کا حصہ نہیں، لیکن چوں کہ مولائے کائنات کی ولایت سے ہی دیں مکمل ہوتا ہے لہذا "اَشْهَدُ انَّ‌ مُحَمَّداً رَسُولُ‌ اللّٰهِ‌" کے بعد اس کا پڑھنا قربت الہی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

🔶 آیۃ اللہ سبحانی: "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" اذان اور اقامت کا حصہ نہیں ہے، لیکن "اَشْهَدُ انَّ‌ مُحَمَّداً رَسُولُ‌ اللّٰهِ‌" کے بعد قصد قربت اور زینت اذان کے عنوان سے کہا جا سکتا ہے۔

🔶 مرحوم آیۃ اللہ خوئی: "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" اذان اور اقامت کا حصہ نہیں ہے، لیکن "اَشْهَدُ انَّ‌ مُحَمَّداً رَسُولُ‌ اللّٰهِ‌" کے بعد قصد قربت کے عنوان سے کہا جا سکتا ہے۔

🔶 مرحوم آیت اللہ بہجت: اگر مطلوب پروردگار ہونے کی نیت سے اذان میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کا اقرار کیا جائے تو اس کا مستحب ہونا بعید نہیں ہے۔

🔶 مرحوم آیۃ اللہ فاضل لنکرانی: اذان و اقامت کا جزء تو نہیں ہے لیکن بہتر ہے کہ "اَشْهَدُ انَّ‌ مُحَمَّداً رَسُولُ‌ اللّٰهِ‌" کے بعد "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" کہا جائے۔

🔶 مرحوم آیت اللہ میرزا جواد تبریزی: مولا علی علیہ السلام اور بقیہ ائمہ علیہم السلام کی ولایت کی گواہی جزء اذان نہیں یے، لیکن یہ شیعوں کی پہچان بن چکی ہے، لہذا نماز کے لئے جو عمومی اذان دی جاتی ہے اس میں اس ولایت کی گواہی کو ترک نہ کیا جائے، لیکن فرادی نماز یا اس کے مانند نمازوں میں اس کا ترک کرنا جائز ہے، واللہ العالم

🔶مرحوم آیۃ اللہ صافی گلپائیگانی: "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" اذان اور اقامت کا حصہ نہیں ہے، لیکن بہتر ہے کہ "اَشْهَدُ انَّ‌ مُحَمَّداً رَسُولُ‌ اللّٰهِ‌" کے بعد قصد قربت کے عنوان سے "اَشْهَدُ انَّ‌ عَلِیاً وَلِی‌ اللّٰهِ‌" کہا جائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .